test

توہین عدالت کیس، ایڈیشنل رجسٹرار نے عدالت میں اپنا جواب جمع کروا دیا

 

توہین عدالت کیس، ایڈیشنل رجسٹرار نے عدالت میں اپنا جواب جمع کروا دیا


عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی، عدالتی آرڈر پر بینچ بنانے کے معاملہ پر نوٹ بنا کر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا تھا، ایڈیشنل رجسٹرار کی عدالت سے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا


اسلام آباد( اخبار تازہ ترین۔23جنوری 2025)توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار نے اپنا جواب جمع کروا دیا ،عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی، عدالتی آرڈر پر بینچ بنانے کے معاملہ پر نوٹ بنا کر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا تھا، سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔

اس دوران ایڈیشنل رجسٹرارنے شوکاز نوٹس پر سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروایا ۔ایڈیشنل رجسٹرار نے عدالت سے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کی ہے ۔جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسارکیا کہ کیا جوڈیشل آرڈر کو انتظامی سائیڈ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکمنامہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔

عدالتی معاون حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تعریف بھی واضح ہے جس میں تمام ججز شامل ہیں۔

یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں مخصوص ججز ہی سپریم کورٹ کی پاور استعمال کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی تشکیل آرٹیکل 175 کے تحت ہوئی ہے، جوڈیشل پاور پوری سپریم کورٹ کو تفویض کی گئی ہے۔وکیل حامد خان نے کہا کہ کچھ ججز کو کم اختیارات ملنا اور کچھ کو زیادہ ایسا نہیں ہوسکتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی؟۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے اس معاملے پر ابہام تو ہے۔جسٹس عقیل عباسی نے اسفتسار کیا کہ حامد خان صاحب آپ آرٹیکل 191 اے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ماضی میں بنچز تشکیل جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں یہ خیر چلیں 26ویں ترمیم کا سوال آجائے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ سوال الگ ہے۔

اگر ہم آرٹیکل 191 اے کی تشریح کا کیس سنتے تو یہ سوال اٹھایا جاسکتا تھا، ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے کیس واپس لینے سے متعلق ہے، چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کرے تو معاملہ فل کورٹ میں جاسکتا ہے؟ اس سوال پرمعاونت دیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا دنیا کے کسی ملک میں بنچز عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بناتا ہے؟ حامد خان صاحب آپ کے ذہن میں کوئی ایک ایسی مثال ہو؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ ایسا کہیں نہیں ہے۔واضح رہے کہ دو روز قبل سپریم کورٹ نے آئینی ترمیم کے بعد بینچز کے اختیارات سے متعلق کیس مقرر نہ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں آئینی بینچز اور ریگولر بینچز کے اختیارات کے معاملے پر سماعت ہوئی تھی۔عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھاکہ بتایا جائے کہ مقدمہ سماعت کیلئے آج مقرر کیوں نہ ہوا؟، ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کل صبح ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ ہمیں بھی اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا، ایڈیشنل رجسٹرار کو فوری بلائیں تاکہ پتہ چلے کیس کیوں نہیں لگا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں کمیٹی کا رکن ہوں، مجھے تو پتہ ہی نہیں اجلاس کب ہوا؟۔ ڈپٹی رجسٹرار نے بتایا کہ ایڈیشنل رجسٹرار کی طبیعت ٹھیک نہیں، وہ چھٹی پر ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھاکہ جو مقدمہ مقرر کرنے کا حکم دیا تھا وہ کیوں نہیں لگا؟، ڈپٹی رجسٹرار کا کہنا تھا کہ ججز کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ترمیم سے متعلقہ 
کیس 27 جنوری کو آئینی بینچ میں لگے گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ ہماری پورے ہفتے کی کاز لسٹ کیوں تبدیل کردی گئی؟، ہم نے ٹیکس کے مقدمات مقرر کر رکھے تھے وہ بھی تبدیل کردیئے گئے تھے۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ججز کمیٹی کا پاس کردہ آرڈر اور میٹنگ منٹس کی تفصیلات طلب کرلیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ کاز لسٹ کیوں تبدیل کی گئی؟، کوئی تحریری ہدایت ہے تو وہ بھی پیش کیا جائے۔

Thanks for read my post......😍😍😍😍😍😍😍😍




کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.